Menu
قربانی کی اصل روح
از: ڈاکٹر اسرار احمدؒ
ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن مثلا نماز کا ایک ظاہر ہے یعنی قیام ہے، رکوع ہے، سجود ہے، قعدہ ہے۔ یہ ایک خول اور ڈھانچہ ہے۔ اس کا ایک باطن ہے یعنی تو جہ اور رجوع الی اللہ خشوع و خضوع، بارگاہِ رب میں حضوری کا شعور و ادراک، انابت، محبت الہٰی……. نماز کی اصل روح اور جان تو یہی چیزیں ہیں۔ اس طرح جانور کو ذبح کرنا اور قربانی دینا ایک ظاہری عمل ہے۔ یہ ایک قول ہے۔ اس کا ایک باطن بھی ہے اور وہ " تقوی" ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم کی سورۃ الحج میں قربانی کے حکم کے ساتھ ( آیت : 37 میں) متنبہ کر دیا گیا کہ: ’’اللہ تک نہیں پہنچتا ان قربانیوں کا گوشت اور ان کا خون ،ہاں اس تک رسائی ہے تمہارے تقوی کی۔‘‘
اگر تقوی اور روح تقوی موجود نہیں، اگر یہ ارادہ اور عزم نہیں کہ ہم اللہ کی رضا کے لیے مالی و جانی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں تو اللہ کے ہاں کچھ بھی نہیں پہنچے گا۔ یعنی ہمارے نامہ اعمال میں کسی اجر و ثواب کا اندراج نہیں ہو گا۔ گوشت ہم کھا لیں گئے کچھ دوست احباب کو بھیج دیں گے، کچھ غرباءکھانے کو لے جائیں گے، کھالیں بھی کوئی جماعت یا دار العلوم والے لے جائیں گے۔ لیکن اللہ تک کچھ نہیں پہنچے گا ،اگر وہ روح موجود نہیں ہے…….. روح کیا ہے ؟ وہ تو امتحان آزمائش اور ابتلا ء ہے اور اس میں کامیابی کاوہ تسلسل ہے جس سے سیدنا حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی عبارت ہے۔
ہمارے لیے لمحہ فکر یہ ہے کہ ہم سوچیں غور کریں اور اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ کیا واقعتا ہم اللہ کی راہ میں اپنے جذبات و احساسات کی قربانی دے سکتے ہیں؟ کیا واقعتا ہم اللہ کے دین کی خاطر اپنے وقت کا ایثار کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے ذاتی مفادات کو اللہ اور اس کے دین کے لیے قربان کر سکتے ہیں؟ اپنے علائق دنیوی اپنے رشتے اور اپنی محبتیں اللہ کے دین کی خاطر قربان کر سکتے ہیں؟ اگر ہم یہ سب کر سکتے ہیں تو عیدالاضحی کے موقع پر یہ قربانی بھی نورعلی نور ہے ……..اور اگر ہم اللہ کے دین کے لیے کوئی ایثار کرنے کے لیے تیار نہیں تو جانوروں کی یہ قربانی ایک خول اور ڈھانچہ ہے جس میں کوئی روح نہیں ۔ بقول علامہ اقبال مرحوم

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی!

Related Media