Menu
رمضان المبارک میں افطار کی اہمیت
از: ڈاکٹر اسرار احمدؒ
مَنْ فَطَّرَفِیْہِ صَائِمًا کَا نَ لَہٗ مَغْفِرَۃٌ لِذُنُوبِہٖ وَ عِتْقُ رَ قَبَتِہٖ مِنَ النَّارِ’’جو کوئی اس مہینہ میں کسی روزہ دار کا روزہ (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے)افطار کرائے گا‘ اس کے لئے اس کے گناہوں کی مغفرت بھی ہوگی اور اس کی گردن کا آتشِ دوزخ سے چھٹکارا پالینابھی ہوگا۔‘‘آگے فرمایا : وَکَانَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِہٖ’’اور اسے اس روزہ دار کے برابر اجرو ثواب بھی ملے گا‘‘مِنْ غَیْرِ اَنْ یُنْتَقَصَ مِنْ اَجْرِہٖ شَیْ ءٌ’’بغیر اس کے کہ اس(افطار کرنے والے روزے دار )کے اجر میں سے کوئی بھی کمی کی جائے‘‘۔آپ حضرات کو معلوم ہوگا کہ حضرت سلمان فارسی ؓ ان فقراء صحابہ کرام ؓمیں سے تھے جن کے پاس اموال و اسبابِ دُ نیوی نہ ہونے کے برابر تھے اور جن پر عام دنوں میں بھی فاقے پڑتے تھے ۔ان اصحابؓ کو اتنی مقدرت کہاں حاصل تھی کہ وہ کسی روزہ دار کو افطار کراسکتے ۔ چنانچہ اسی حدیث شریف میں آگے آتا ہے کہ:قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَیْسَ کُلُّنَا یَجِدُ مَا یُفَطِّرُ بِہِ الصَّائِمَ’’ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ !ہم میں سے ہر ایک کو تور وزہ دار کا روزہ افطار کرانے کی استطاعت نہیں ہے(تو کیاہم اس اجر و ثواب سے محروم رہیں گے)؟‘‘ حضرت سلمان فارسیؓ کی اس بات پر حضور ﷺ نے جو جواب ارشاد فرمایا اسے حضرت سلمان فارسیؓ آگے بیان کرتے ہیں کہ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : یُعْطِی اللّٰہُ ھٰذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلیٰ مَذْقَۃِ لَبَنٍ اَوْ شُرْبَۃٍ مِنْ مَاء’’تو رسول اللہﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی عطا فرمائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا صرف پانی کے ایک گھونٹ ہی پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے گا‘‘۔
یہاں یہ بات سمجھ لیجئے کہ ہمارے یہاں اس دَور میں کھانے پینے کی اشیاء کی جوافراط ہے اُس وقت اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔اُس وقت اگر فقراء صحابہ کرام ؓ میں سے کسی کو افطارکے لئے کہیں سے کچھ دودھ مل جاتاتھا تو وہ اس میں پانی ملا کر لسّی بنالیا کرتے تھے ۔ اور کوئی رفیق ایسا بھی ہو جسے یہ بھی میسر نہیں تو اگر وہ اسے اس لسّی میں شریک کرلے تو اُس وقت کے حالات میں یہ بھی بہت بڑا ایثار تھا ۔ ہم کو آج کھانے پینے کی جو فراوانی ہے اس کے پیش نظر ہم حضورﷺ کے اس ارشاد ِمبارک کی حکمت کو صحیح طور پر سمجھ ہی نہیں سکتے ۔ یہ اُس دَور کی بات ہے جب کہ اُن فقراء صحابہ کرام ؓ پر کئی کئی دن کے فاقے پڑتے تھے ۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میرا یہ حال ہوتا تھا کہ کئی کئی دن کے فاقے سے مجھ پر غشی طاری ہو جاتی تھی ‘ لوگ یہ سمجھتےتھے شایدمجھ پر مرگی کا دورہ پڑا ہے او ر آکر اپنے پاؤں سے میری گردن دباتے تھے۔شاید اُس دَور میں یہ بھی مرگی کا علاج سمجھا جاتا ہو۔پھر یہ کہ وہاں پانی کے بھی لالے تھے ‘ پانی بھی بڑی قیمتی شے تھا۔ بڑی دُور سے اسے کنوؤں سے کھینچ کر لانا پڑتا تھا۔ ماحول کے اس تناظر میں سمجھئے کہ حضورﷺ کے ارشاد مبارک کا اصل منشاء و مدعا کس نوع کے ایثار و قربانی کے جذبے کو پیدا کرنے کی طرف تھا کہ لوگ اپنی ذات اور اپنی ضروریات کے مقابلے میں اپنے کمزور بھائیوں کی ذات اور ان کی ضروریات کا زیادہ خیال رکھیں۔ یہ بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ یہاں ایک ضمنی بات یہ سمجھ لیجئے کہ جدید دَور کی عربی میں لبن دہی کو اور حلیب دودھ کو کہا جاتاہے۔ آگے چلئے‘ حضورﷺ کے ارشاد کا سلسلہ جاری ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں: وَمَنْ اَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاہُ اللّٰہُ مِنْ حَوْضِی شُرْ بَۃً لَا یَظْمَأُ حَتّٰی یَدْ خُلَ الْجَنَّۃَ’’اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی حو ضِ کوثر)سے ایسا سیراب فرمائے گا کہ (میدانِ حشر کے مرحلہ سے لے کر بقیہ تمام مراحل میں) اس کو پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا‘‘۔

عظمتِ صیام و قیام ۔۔رمضان المبارک

تفصیلی مطالعہ کے لیے کلک کریں۔

Related Media